میری تحریر میری سوچ کی عکاس ہے۔

تو مرا وطن نہیں مگر وطن سے کم بھی نہیں۔



تجھ سے تعلق بہت پرانا ہو چکا ہے ، تر ے ساتھ بتائے ہر پل یاد آئیں گے، ترے ساتھ گذرا ہر لمحہ مر ی زندگی کا ایک یاد گار لمحہ رہا ۔
اورتیری اس چھوٹی سی دنیا میں بسنے والے  لوگوں میں سے کچھ عام تھے تو کچھ خاص اور کچھ بہت ہی خاص اور ان میں سے ایک ایسا بھی دیوانہ تھا جو  ہر پل ہر لمحہ اور یا یوں کہہ لوں کہ زندگی کے ہر مشکل موڑ پر سرحدوں کا فرق بھول کر مر ے ساتھ کھڑارہا۔
تیرے  ساتھ گذارے ان چار سالوں میں زندگی میں بڑے اتار چڑھاؤ آئے ۔ 
کبھی کسی سے قربت بڑھی تو کبھی دوریاں ، کبھی باتوں باتوں پرتُو تُو مَیں مَیں ہوئی اور کبھی معافی تلافی کا سلسلہ، اور یوں ہی وطن اصلی سے دور ہنستے کھیلتے لڑتے جھگڑتے چار  سال کیسے  گذر گئے احساس  تک نہ ہو۔
ہاں تجھ سے ایک شکوہ ضرور ہے کہ اگر تو نے مجھے بہت کچھ دیا ہے تو ان چار سالوں میں بہت کچھ چھین بھی لیا۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب میں 9/ دسمبر 2012 عیسوی طلوع فجر سے پہلے تیر ے دروازے پر دستک دے رہا تھا  تو میں بہت خوش تھا  اور وہ اسلئے کہ ترے پاس آنے کے بعد بہت سی مشکلیں حل ہوجانے کی اللہ کی ذات سے امید تھی۔ اور الحمد اللہ امید بھی پوری ہوئی ۔
لیکن ابھی میں تجھ سے مانوس ہی ہونے والاتھا کہ موبائل کی گھنٹی بج اٹھی اور خبر یہ ملی کہ آج رات 9-10بجے کے درمیان  آپ کے ماموں( انیس احمد) اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ اور یہ 17/ اپریل 2014 عیسوی کی شام تھی۔ 
خبر سنی افسوس ہوا اور گھر سے دور رہنے والے یہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ  ایسی خبریں سننے کے بعد دل  پر کیا گذرتی ہے۔
خیر۔۔۔  وقت نے پھر رفتار پکڑی اور چلنا شروع ہوا اب اسکو کون روک سکتا ہے۔
ابھی دو ہی مہینے گذرے تھے کہ خبر پھر وہی کی  آج شام 7-8 کے درمیان آپ کے پھوپھا  داع اجل کو لبیک  کہہ گئے۔ اور 18/ جون 2014 عیسوی تھی پورے دو مہنے  بعد۔۔
اور پھر اسکے بعد زندگی معمول پر آئی اور ایک ہی رفتار سے چلنا شروع ہوئی وطن اصلی میں لوگوں نے شادیاں رچائی محفلیں سجائی اور خوش ہو ہوکر عیدیں منائیں لوگوں سے چمٹ چمٹ کر گلے بھی ملے عید کی مبارک بادیں بھی دیں سیویّاں بھی کھائیں اور کھلائی ، ان سب میں اگر کوئی دور تھا تو ہم تھے ہم سے گلے ملنے والا کوئی اور نہ سیویّاں کھلانے والا اور نہ ہی  درد سننے  سنانے والا کوئی تھا۔ بس ہم تھے ہماری تنہائی، عید کے دن زباں پر بس لفظ کاش ہی ہوتا تھا خیر اب تجھ سے کیا شکوہ کریں اور کتنا کریں حقیقت تو یہ ہے کہ
میری تنہائیوں کا ساتھی بھی تو تو ہی تھا نہ۔
ایک دن اگر کوئی کسی کو پناہ دے تو محبت ہو جاتی ہے تو نے تو پھر چارسال مجھے اپنی پناہ  میں رکھا۔
ہاں میں  تیرے  ساتھ رہتے ہوئے بہت زیادہ خوش نہ تھا لیکن اب جدائی کا غم سہنا بھی آسان نہیں۔
بہت احسان ہیں تیرے مجھ پر جو کبھی نا چکا پاؤں گا شائد۔
میں سچ کہتا ہوں تو میرا وطن نہیں  پر وطن سے کم بھی نہیں۔
الوداع اے شہر  "ابھا"  الوداع

@mzazmi1

محمد زاہد الاعظمی

تازہ ترین اپڈیٹ کیلئے ہمیں ٹیوٹر پر فالو کریں۔

فالو کریں