میری تحریر میری سوچ کی عکاس ہے۔

یہ مسئلہ تو مرے چاند تیری دید کا ہے

جوش ایمانی، دلی مسرت و شادمانی کا نام عید ہے، جذبوں کی فراوانی کا نام عید ہے محبتوں اور چاہتوں کے دریاؤں کی روانی کا نام عید ہے اپنی کی قربتوں سے معمور زندگانی کا نام عید ہے ایک دوسرے کی تکریم و توقیر اور باہم شیریں زبانی کا نام عید ہے۔ 
عید ایک بہانہ ہے آپس میں ملنے کا، چاک گریباں سلنے کا، سننے کا سنانے کا، بگڑی بات بنانے کا، شکوے دور کرنے کا ہنسنے پر مجبور کرنے کا، بننے کا سنورنے کا سجنے کا نکھرنے کا مسکرانے کا منانے کا۔عید کا لفظ سنتے ہی ذہن میں خوشی کا احساس جاگتا ہے۔ اردو زبان میں بھی خوشیوں سے معمور لمحات کیلئے "عید " کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ دعا بھی جاتی ہے کہ" آپ کی زندگی یوں بسر ہو کہ ہر روز روزِ عید اور ہر شب شبِ برات"۔ عام طور پر بڑی بڑی خوشیوں کو عید کے مماثل قرار دیا جاتا ہے۔ جب کسی کو بڑی اور دلی خوشی حاصل ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ " فلاں کی تو عید ہوگئی" یا " انکے ہاں تو عید کا سماں ہے"۔ ہر انسان کی زندگی میں ایسی بڑی بڑی خوشیاں ضرور آتی ہیں جنہیں عید قرار دیا جاتا ہے مثلاً جب کسی دولہا کو طویل جد و جہد کے بعد بالآخر اس کی من پسند دلہن مل جائے تو احباب اس دولہا سے کہتے ہیں کہ مبارک ہو! چاند گھر آگیا آپ کی تو سچ میں عید ہوگئی۔
دیار غیر میں مقیم ایسے تارکین جن کے اہل و عیال وطن میں ہیں وہ عید کے موقع پر انتہائی مظلومیت و معصومیت سے معمور ہستیاں دکھائی دیتی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن سے یہ دریافت کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی کہ "آپ یہاں اپنی فیملی کے ساتھ مقیم ہیں یا تنہا " کیونکہ ان تارکین کے چہروں پر "گشت" کرتی اداسی بے آواز انداز میں چلا چلا کر یہ کہتی سنائی دیتی ہے:
"جو وطن سے دور ہیں کیاخاک انکی عید ہے"
یہ وہ لوگ ہیں جو عید کا یوں اہتمام کر لیتے ہیں کہ تنہائی میں بیٹھ کر اپنے مکان کی دیوار پر کسی ایک نقطے ک انتخاب کر کے اسے گھورنا شروع کرتے ہیں اور یوں عید تمام کر لیتے ہیں۔ یہ نقطہ ان پردیسیوں کیلئے ایسا جھروکا بن جاتا ہے جو پسے دیوار وطن کا "غیر مرئی نظارہ" کراتا ہے جہاں انکی شریک زندگی کی سوالیہ نظریں محوِ انتظار دکھائی دیتی ہیں۔ وہ عید پر بنتی سنورتی ہیں آئینے کے سامنے کھڑی ہوتی ہیں اور خاموش سوال کرتی ہیں نجانے اس چاند کا دیدار کرنے والا کب آئے گا اور عید منائے گا۔ پردیسی کو اسکی شریکِ سفر رو رو کر یہ کہتی سنائی دیتی ہے کہ وہ چاند تو تم نے دیکھ لیا جو ساری کائنات کا ہے اس چاند کو بھی دیکھ لو جو فقط اپنے شریکِحیات کا ہے۔ وہ اپنے چہرےپر ایک اور لکیر شمار کر کے اپنے گہناتے حسن کاتصور کرتی ہے اور دل ہی دل میں اپنے ہمدم سے سوال کرتی ہے کہ تم پردیس میں وقت گذار کر مال کما رہے ہو اور میں دیس میں انتظار کرکے جمال گنوا رہی ہوں۔ یہ تمام مناظر دیکھ کر پردیسی کا دل بیٹھنے لگتا ہے اور وہ جذبات یوں منظم کرتا ہے کہ:

دیار غیر میں کب انتظار عید کا ہے
یہ مسئلہ تو مرے چاند تیری دید کا ہے
کروں میں تجھ پہ نجھاور جہان کی خوشیاں
تنازعہ تو فقط قیمتِ خرید کا ہے

پھر اسے اچانک اسی جھروکے میں الفت، محبت،مؤدت،پیار، دلار،اپنائیت، معصومیت اور ،مظلومیت سراپا ہستی دکھائی دیتی ہے اور اسے اپنی سماعتوں سے متصادم ایک صدا سنائی دیتی ہے
"پاپا! آپ عید پر مجھ سے ملنے نہیں آئے ناں، جائے میں آپ سے نہیں بولتی، آپ سے میری کٹی"۔ 
یہ جملہ اس پردیسی کے دل میں سرد نشتر کی طرح اترتا محسوس ہوتا ہے۔ دیوار پر نقطے کی شکل میں دکھائی دینے والا جھروکا ڈبڈبانے لگتا ہے"کٹی" کا لفظ اسے جھنجوڑ دیتا ہے اور وہ آنکھوں سے رواں "آبِ ترحم" کواپنی آستین میں جذب کر کے فوراً موبائل اٹھاتا ہے اور بیٹی کو فون ملا کر کہتا ہے کہ مجھے اپنی گڑیا بہت یاد آرہی ہے۔ ناراض نہیں ہونا، کٹی نہیں کرنا، میں آئندہ عید پر اپنی بیٹی کیلئے کھلونے لیکر آؤں گا۔ وہ اپنے پاپا کیبات مان لیتی ہے اسی دوران پردیسی کی ہمسفر اپنی بیٹی سے فون لیکر پوچھتی ہے کہ حال کیسا ہے، پردیسی جواباً کہتا ہے کہ میں آپ کیلئے کیا لاؤں؟ وہ کہتی ہے کچھ نہ لائیں بس آپ آجائیں۔ پردیسی اپنی "سہیلی" کو اپنی محبتوں، چاہتوں، رفاقتوں اور عنایتوں کا یقین دلانا شروع کر دیتا ہے، اسی دوران ایک چھناکے سے تمام"تاروپود" بکھر جاتے ہیں اور فون کی اسکرین پر پیغام نمودار ہوتا ہے کہ آپ کا "کریڈٹ ختم ہوچکا۔" یوں عیدکا دن تمام ہوجاتا ہے اور پردیسی اپنی ادھوری گفتگو مکمل کرتے کرتے خواب کی دنیا میں کھو جاتا ہے۔ ان پردیسیوں کے چہرے کو ذرا غور سے دیکھئے، آپ کا دل گواہی دیگا کہ واقعی یہی ہیں وہ مظلوم ہستیاں۔
تحریر:۔ شہزاد اعظم۔ جدہ
ماخوذ از  اردو نیوز سعودی عربیہ

@mzazmi1

محمد زاہد الاعظمی

تازہ ترین اپڈیٹ کیلئے ہمیں ٹیوٹر پر فالو کریں۔

فالو کریں