میری تحریر میری سوچ کی عکاس ہے۔

میں آزادی کیسے مناؤں؟


میں آزادی کیسے مناؤں؟
پرچم کشائی کی رسم میں کیسے ادا کروں؟
سینے پر ترنگا میں کیسے چسپاں کروں؟
آزادی منا کر مٹھائی میں کس کو تقسیم کروں؟
سارے جہاں سے اچھا میں کیسے گاؤں؟
مجاہدین ِ آزادی کا ذکر کس منہ سے میں چھیڑوں؟
میں یہ کیسے کہہ دوں کہ میرا ملک آزاد ہے؟
میں یہ کیونکر کہوں کہ میں ایک آزاد فضا میں سانس لے رہا ہوں؟
جب کی میرے ملک میں شدت پسندی اپنے انتہاء  کو پہنچی ہوئی ہے۔میرے اس عظیم ملک میں دلتوں، مسلمانوں، عیسائیوں  اور کمزور طبقے پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، کہیں گوشت کے نام پر  تو کہیں لو جہاد کے نام پر ۔
رِیپ کی وارداتیں  عروج پر پہنچ چکی ہے۔سڑکوں پر چلتی ہماری مائیں ،بہنیں یہاں تک کہ چھوٹی چھوٹی معصوم بچیاں تک محفوظ نہیں ہیں۔ 
مہنگائی کا حال یہ ہے کہ دو وقت کی روٹی محال ہو رہی ہے۔
میرے  اس عظیم ملک کی صحافت کو سچ کو جھوٹ اور جھوٹ  کو سچ ثابت کرنے میں ایک مہارت حاصل ہے۔ 
میرے ملک کو آزادی کا بگل بجائے ہوئے 70/ ستر سال گزر گئےلیکن میرے اس ملک میں آج بھی 20/ کروڑ  میرے ہندی بھائی رات کو بلا کھانا کھائے سوجاتے ہیں۔
ہر سال تقریباً 25/ لاکھ ہندوستانی بھوک کی وجہ سے اپنا دم توڑ دیتے ہیں۔
تو آپ ہی بتاؤ مجھے۔۔  میں ہاتھوں  میں ترنگا لیکر سارے جہاں سے اچھا پڑھتا رہوں اور دنیا سے کہتا رہوں کہ "پدرم سلطان بود"(میرا باپ بادشاہ تھا)
اگر آج علامہ اقبال علیہ الرحمتہ ہوتے تو شائد  "سارے جہاں سے اچھا" کے جواب میں ایک اور نظم لکھ چکے ہوتے۔
میرے ملک میں کرپشن کا حال یہ ہے کہ چھوٹے کرمچاری سے لیکر حکومت ِوقت تک  کوئی بھی اس کالے دھندے سے بچا ہوا نہیں ہے۔
میرے ملک کے حکمراں بیان بیان کھلتےہیں۔
میرے ملک  کے موجودہ وزیر اعظم کو اپنی سیاحت سے فرصت نہیں ہے۔
میرے ملک کا رہبر من کی بات کرتا ہے لیکن من کی بات سنتا نہیں ہے۔
آج پورا ملک بارود کے ڈھیر پر ہے ۔  کشمیریوں پر  گولیوں کی برسات کی جاتی ہے ۔ملک کا کونسا حصہ کب فرقہ وارنہ فساد کی زد میں آجائے  کچھ پتا نہیں ۔
کہنے کو اور بھی بہت کچھ ہے لیکن پھر کبھی ۔
آج میں صرف اتنا پوچھونگا کہ کیا اب بھی میں پرچم کشائی کر کے مٹھیاں تقسیم کروں؟
اب بھی سینے پر ترنگا چسپاں کروں؟
کیا اب بھی میں چہرے پر  جھوٹی مسکان سجا کر گاؤں کہ
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اسکی یہ گلستاں ہمارا
نہیں میں تو نہیں گاؤنگا  ۔۔۔۔اور معاف کرنا میرے ہندوستانی دوستو میں آپ کو مبارک باد بھی نہیں دونگا کیوں کہ میرا ملک ایک بار پھر آزادی  مانگ رہا  ہے، ایک بار پھر میرے ملک کو خون کی ضرورت ہے ،  میرے ملک  کو پھر غلامی کی زنجیر پہنا دی گئی ہے۔ میرا ملک چیخ چیخ کر آوازیں دے رہا ہے کہ 
اے محبین وطن !!
کیا تمہیں نظر نہیں آتا کہ مجھے اغوا کر لیا گیا ہے ؟ میرے عزت کو تار تار کر دیا گیا ہے ؟ بے گناہوں کے میری جیلوں کے اندر ٹھونس دیا گیا ہے؟ اور ان پر ناقابل بیان مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔میرے سینے پر غدار دندناتے پھر رہے ہیں ؟ آنکھیں کھولو اور ایک بار پھر  کالے انگریزوں سے آزادی کے لئے بگل بجاؤ  میدان میں آؤ اور مجھے بچاؤ ورنہ میں ٹکڑے ٹکڑے ہوجاؤں گا میں تھک چکا ہوں مجھے تمہاری ضرورت ہے آج اگر تم نے مجھے سنبھال لیا تو ہو سکتا ہے میرا وجود باقی رہے ورنہ میں تو ٹکڑوں میں بنٹنے کی کگار پر ہوں ۔ مجھے ایک بار تقسیم کر کے اسکا صلہ دیکھ لیا اب مجھے ٹکڑے نہ ہونے دو۔ اٹھو اے محبین وطن اٹھو

@mzazmi1

محمد زاہد الاعظمی

تازہ ترین اپڈیٹ کیلئے ہمیں ٹیوٹر پر فالو کریں۔

فالو کریں